Labon Pe Thehri Dua Ho Tum Novel By Isha Gill Episode 84
Labon Pe Thehri Dua Ho Tum Novel By Isha Gill Episode 84
"کم آن جیا وہاں کیوں کھڑی
ہو یہاں آؤ نا میرے پاس۔پھر بتاتا ہوں کہ کیا کہنا چاہتا ہوں۔"
اس نے جیا کو ہاتھ کے
اشارے سے اپنے پاس بلایا تو جیا قدم قدم چلتی اس کے قریب آ کھڑی ہوئی۔
"یہاں بیٹھو۔"
اس نے اپنی تھائی پہ ہاتھ
رکھتے ہوئے حکم صادر کیا تو جیا چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔
"اس فریب پہ مبنی کہانی
سننا چاہتی ہو تو بیٹھ جاؤ۔"
وہ کھڑی رہی تو یاور
دوسرا سگریٹ سلگاتا دوبارہ بولا۔اس بار جیا فوراً بیٹھ گئی۔
"My Darling."
اس نے سگریٹ کا کش بھرتے
ہوئے دھواں جیا کے چہرے پہ چھوڑا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں کو چھیڑنے لگا۔
"تم شہزین کے ساتھ چیٹ کر
رہے ہو آخر کیوں۔؟"
بیٹھتے ہی اس نے پوچھا۔
"کیونکہ وہ اسی لائق ہے۔"
یاور اپنے دونوں ہاتھوں کی
مصروفیات جاری رکھتا بولا۔
"کوئی وجہ تو لازمی
ہے۔۔مجھے بتاؤ یاور۔"
وہ دلچسپی رکھتی تھی
جاننے میں۔
"وجہ تو نہیں بتاؤں گا جیا
ڈارلنگ مگر اتنا بتا دیتا ہوں کہ ایسا کر کے میں شہزین سے اپنا بدلہ پورا کر رہا
ہوں۔مجھے اس سے محبت بلکل نہیں ہے۔میں اس کے ساتھ صرف تب تک ہوں جب تک میرا بدلہ
پورا نہیں ہو جاتا۔"
وہ زہر خند لہجے میں
بولا۔
یاور شہزین کو دھوکہ دے
رہا ہے اس کے ساتھ سوچے سمجھے پلین کے تحت ہے۔اسے شہزین سے محبت ہرگز نہیں ہے یہ
جان کر جیا کو بےحد خوشی ہوئی تھی۔وہ خوامخواہ ہی اتنے مہینوں سے جل رہی تھی۔
"کیسا بدلہ یاور۔؟"
امید تھی کہ شاید وہ بتا
دے تب ہی اس نے پوچھا۔
"کچھ راز۔۔۔راز ہی رہیں تو
بہتر ہے۔تم بس اتنا جان لو کہ مجھے تمہاری دوست میں رتی بھر بھی دلچسپی نہیں ہے
ہاں تم میں ضرور ہے۔
یو نو واٹ تم اس سے کہیں
زیادہ خوبصورت ہو جیا۔بہت خوبصورت۔"
وہ جیا کی گردن پہ انگشت
شہادت پھیرتا بولا تو جیا نے تھوک نگلا۔
"یاور تم سچ کہہ رہے ہو
نا۔"
وہ اس کا گردن پہ سرکتا
ہاتھ پکڑتی پوچھنے لگی۔
"کیا تمہاری خوبصورتی کے
بارے میں۔؟"
اس نے مسکرا کر پوچھا۔
"نہیں۔۔۔مجھ میں انٹرسٹ
رکھنے کے بارے میں۔؟"
اس کا سوال دوسرا تھا۔
"تم میں ہی تو انٹرسٹ ہے
جان من۔۔۔"
وہ معنی خیزی سے کہتا اس
کی گردن پہ جھک گیا تو اس کے ہونٹوں کے لمس سے جیا کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے
کا نیچے رہ گیا۔
سگریٹ پینے کے سبب یاور
کے ہونٹ کچھ زیادہ ہی گرم تھے۔جیا تو آنکھیں بند کیے اس کے لمس کو محسوس کرتی گئی۔
"جیا ڈارلنگ۔۔۔"
یاور نے سرگوشی بھری آواز
میں اسے پکارا۔
"بولو یاور۔"
وہ آنکھیں بند کیے ہی بولی۔
"میری جان میرا ایک کام
کرو گی۔؟"
وہ سوچے سمجھے پلین کے
تحت بلکل اہم پوائنٹ پہ آ کر پوچھ رہا تھا تا کہ انکار ہو ہی نہ سکے۔
"تم جتنے کام بولو گے اتنے
کروں گی یاور۔"
وہ تو دل و جان سے راضی
تھی۔
"بس ایک کام۔"
وہ پیچھے ہٹا اور ہاتھ میں
جلتے سگریٹ کو ایش ٹرے میں رکھا۔